Abid Jaffery Gazal In Urdu
خوں مرا جس سے ہوا ہے خنجر احباب ہے
یہ حقیقت ہے مگر لگتا ہے جیسے خواب ہے
اس لیے مجھ سا نمایاں ہو گیا بے بال و پر
جس جگہ میں ہوں وہاں ہر آدمی سرخاب ہے
ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر ڈوب جاتا ہے وہی
جو تلاش گوہر یکتا میں زیر آب ہے
اب کسی جنگل میں جا رہئے کہ اپنے شہر میں
آدمی ہی آدمی کے واسطے نایاب ہے
زندگی اپنی بالآخر ہو گئی اس پر تمام
جو کتاب زندگی کا نا مکمل باب ہے
وہ تو یہ کہئے شکستہ ہو چکا ہے حوصلہ
ورنہ دل اب بھی کسی کے وصل کو بیتاب ہے
عابد جعفری
وہ دل کی جھیل میں اترا تھا ایک ساعت کو
یہ عمر ہو گئی ہے سہتے اس ملامت کو
کہیں تو سایۂ دیوار آگہی مل جائے
کوئی تو آئے کرے ختم اس مسافت کو
تمہیں سے مل کے مری دل سے آشنائی ہو
تمہارے بعد ہی جانا ہے اس قیامت کو
وہ ایک شخص مجھے کر گیا سبھی سے جدا
ترس رہا ہوں میں جس شخص کی رفاقت کو
عجیب لوگ ہیں اس شہر کے بہ نام وفا
ہوائیں دیتے ہیں ہر شعلۂ عداوت کو
جواز بھی تو کوئی ہو مری تباہی کا
چھپا رہے ہو تبسم میں کیوں ندامت کو
گئے دنوں کا مناتے ہو سوگ پھر عابدؔ
ہمیں یقیں ہے نہ بدلو گے اپنی عادت کو
عابد جعفری
محبتوں پر دل حزیں کو نثار کرنا
ہے یوں کہ جیسے جنوں میں خود ہی پہ وار کرنا
عجب نہیں وہ بھی میرے رستے پہ خود کو ڈالے
وہ جس نے سیکھا ہے قافلوں کو غبار کرنا
وہ ایک بارش کی منتظر بے شمار آنکھیں
وہ ایک طوفاں کا بستیوں کو شمار کرنا
مجھے تو اس نے تمام لمحے وہی دئے ہیں
وہی جو اہل جنوں کو ہوں اختیار کرنا
شفق اتر کر تمہارے پلو سے بندھ گئی ہے
جو ہو سکے تو سحر تلک یہ حصار کرنا
اذیتوں کا خمیر زخم نہاں سے اٹھا
کبھی جو چاہا ہے دل کا صحرا بہار کرنا
عابد جعفری
یہی تو ایک شکایت سفر میں رہتی ہے
ہوائے گرد مسلسل نظر میں رہتی ہے
جزائے کاوش تعمیر یہ ملی ہے ہمیں
صدائے تیشہ سدا ساتھ گھر میں رہتی ہے
ہنر کسی میں ہو قسمت ہے اس کی در بدری
کہ آب و تاب گہر کب گہر میں رہتی ہے
سماعتوں کا پیمبر ہی بن سکے تو سنے
وہ داستاں جو لب چشم تر میں رہتی ہے
ہر ایک صبح پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں
نہ جانے کون سی سرخی خبر میں رہتی ہے
عابد جعفری
کون تھا جو دست قاتل کے لئے تیار تھا
ایک میں ہی بزم اہل خواب میں بیدار تھا
بھر لیے ہیں تیرگی سے گھر کی دیواروں کے گھاؤ
کیا نیا سورج ہمارے واسطے آزاد تھا
خشک نہروں سے صدائے تشنگی آتی رہی
اور سمندر موج بے آواز سے سرشار تھا
آ رہے تھے موسموں کے نام پھولوں کے پیام
تم نہ تھے تو موسم گل بھی نگہ میں خار تھا
دے دیا گھر کے چراغوں کو ہوا کی گود میں
لوگ کہتے تھے کہ اک سایہ پس دیوار تھا
اب بھی یوں لگتا ہے جیسے ہر خبر ہو آج کی
اس لئے برسوں پرانا میز پر اخبار تھا
عابد جعفری
یہ داغ ہجر نہیں مٹ سکا جبیں کا لگا
زمیں کہیں کی ہے پیوند ہے کہیں کا لگا
ملا ہے دشت ہمیں جستجو میں منزل کی
گماں تھا پاؤں میں اور آبلہ یقیں کا لگا
ہمارا نام و نسب ہم سے پوچھنے والے
لہو نہ اس طرح دامن پہ آستیں کا لگا
اٹھا کے دوش پہ خیمے نکل پڑے ہم لوگ
ذرا نہ خوف ہمیں اجنبی زمیں کا لگا
عابد جعفری
کر چکا پھول میں جب سارے جہاں کے پتھر
آ پڑے سر پہ مرے جانے کہاں کے پتھر
ظرف دل میں نمی اشک حقیقت نہ رہی
اتنے بخشے ہمیں لوگوں نے گماں کے پتھر
پئے حق در پئے پیکار کوئی ملتا نہیں
بندھ گئے پاؤں سے کیا وحشت جاں کے پتھر
خاک میں مل گئے سب پھول سے لوگوں کے وجود
لگ گئے قبر پہ بس نام و نشاں کے پتھر
کو بہ کو ہو گئیں تعمیر عبادت گاہیں
جمع کرتے ہی رہے ہم تو مکاں کے پتھر
زندگی کے لیے گوہر وہی ٹھہرے عابدؔ
لوگ کہتے ہیں جنہیں فکر جواں کے پتھر
عابد جعفری
بصارتوں کو رہ شوق میں گنوا دیکھا
تجھے نہ دیکھا مگر ہاں یہ حادثہ دیکھا
وجود سونپ کے سب کچھ بچا لیا ہم نے
نہ آنکھ میں کوئی آنسو نہ سانحہ دیکھا
کتاب زیست بھی اپنی نہیں رہی کہ یہاں
ہر اک ورق پہ نیا ایک حاشیہ دیکھا
خلاف موج سمندر شناس بہہ نکلے
میں جس طرف گیا طوفان ہی اٹھا دیکھا
عابد جعفری
شکوے ہمیں تو جہد مکرر کے نہیں ہیں
ہجرت ہوئی ہے یوں کہ کسی گھر کے نہیں ہیں
کس جرم میں یہ پہلو تہی ہم سے روا ہے
اے شیشۂ گرد ہم کوئی پتھر کے نہیں ہیں
سربستۂ زنجیر کیا ہم کو جنہوں نے
وہ لوگ اسی گھر کے ہیں باہر کے نہیں ہیں
کس درجہ مکرم ہیں مرے اشک نہ پوچھو
وہ دام ملے ہیں کہ جو گوہر کے نہیں ہیں
وہ درد سہا ہے کہ جو غیروں کا نہیں تھا
وہ زخم لگے ہیں کہ جو خنجر کے نہیں ہیں
عابد جعفری
میں اجنبی رہا سب سے مگر سبھی میں رہا
یہ حوصلہ بھی یہاں پر کسی کسی میں رہا
قبائے عظمت انساں ملی فقیروں کو
فقیہ شہر تو کیا کیا نہ سروری میں رہا
کھنچا ہے زخم عداوت سے دوستی کا لہو
جسے عزیز رکھا جاں سے دشمنی میں رہا
چراغ رکھ دئے سورج کے سامنے لا کر
مگر وہ فرق نہ جانا جو روشنی میں رہا
زبان کھلتی تو ہوتا قدم قدم مقتل
سکوت خوف کی صورت گلی گلی میں رہا
عابد جعفری
2nd Part Gazal In Urdu
درد کی آنچ میں جلتا ہے یہ گھر کیا کیجے
خواب ہوتی ہے تمنا کی سحر کیا کیجے
ہم بھی مانوس نہیں دل کے اندھیروں سے ابھی
طائر شب بھی ہے کھولے ہوئے پر کیا کیجے
دور منزل ہے کڑی دھوپ میں کرنا ہے سفر
کٹ گئے راہ میں جتنے تھے شجر کیا کیجے
وہ گئے وقت کی مانند نہ لوٹے گا کبھی
اب لٹا کر یہ وفاؤں کے گہر کیا کیجے
بے گواہی کے بھنور میں ہے مری ذات کہ اب
آنکھ کی جھیل بھی ہوتی نہیں تر کیا کیجے
بارش سنگ تو بے وجہ نہیں ہے عابدؔ
آ گیا مجھ کو وفاؤں کا ہنر کیا کیجے
عابد جعفری
شب کی آغوش میں جاگا ہوا گھر کس کا ہے
اس پہ آسیب نہیں ہے تو اثر کس کا ہے
ایسا سیلاب کہ جنگل کو بہا لے جائے
ایسے سیلاب میں بے برگ شجر کس کا ہے
انگلیوں میں اتر آئے ہیں بصارت کے رموز
تیرگی میں رہے مخفی یہ ہنر کس کا ہے
بے چراغی ہی رہی اپنے گھروں کی میراث
روشنی پوچھتی پھرتی ہے کہ در کس کا ہے
وہ مسافر تو گیا چھوڑ کے یادیں اپنی
کس کو بتلاؤں کہ یہ زاد سفر کس کا ہے
تم مری راہ سے ہو کر نہیں گزرے ہو تو پھر
نقش پا یہ طرف راہ گزر کس کا ہے
پھر سے مدہوش تمنا کے ہوئے ہوش بجا
ہم پہ عابدؔ یہ کرم بار دگر کس کا ہے
عابد جعفری
یہ کس نے عہد فراموش سے صدا دی ہے
ابھی چراغ جلائے ہی تھے ہوا دی ہے
یہ ورثہ ہم سے نئی نسل کو کبھی نہ ملے
زباں ہمارے بزرگوں نے بے نوا دی ہے
خراج آرزوئے موسم بہار ہے یہ
لہو لہو جو مرے پیرہن کی وادی ہے
کوئی بھی گھر سے نہ نکلے چراغ دل لے کر
امیر شہر کی یہ شہر میں منادی ہے
ملی ہے یہ مہ و انجم سے دوستی کی سزا
کہ آفتاب نے بینائی تک جلا دی ہے
کہاں سے کاٹو گے کل تم مسرتیں عابدؔ
یہ فصل اشک جو ہر آنکھ میں اگا دی ہے
عابد جعفری
وہ جو اپنے تھے وہی ہو گئے ہرجائی بھی
بات پیشانی پہ لکھی ہوئی پیش آئی بھی
دل تو پہلے ہی تھا محصور غم تنہائی
اس پہ دھرنا دئے بیٹھی ہے یہ پروائی بھی
جس طرف رخ ہو ہوا کا یہ برستی ہے وہیں
ابر کی طرح سے ہوتی ہے شناسائی بھی
دل کو رہتی بھی ہے اب محفل یاراں کی تلاش
اور طبیعت ہے کہ اس بزم میں گھبرائی بھی
عابد جعفری
غم دیا ہے تو سوا حوصلۂ غم دینا
یہ تو اک آگ ہے پھر کیا اسے شبنم دینا
اب بھی سوئی ہوئی راتوں کی تھکن باقی ہے
خواب دینا ہوں ضروری تو ذرا کم دینا
وقت سے ہی مجھے امید مسیحائی کی تھی
وقت ہی بھول گیا زخم کو مرہم دینا
اس نے تعبیر کے سب بھید چھپائے ہم سے
جس نے سیکھا ہے ہمیں خواب کا عالم دینا
عابد جعفری
ہم کو جاناں اس نگری میں چلنا بھی دشوار ہوا
لوگوں کا ہر سنگ ملامت اپنے لیے دیوار ہوا
دل کے سب دکھڑے دل میں ہیں پھر بھی انہیں یہ شکوہ ہے
چاک گریباں کیوں پھرتے ہو دامن کیوں ہے تار ہوا
صبح سے ہلکی ہلکی کسک تھی میٹھا میٹھا درد سا تھا
شام کا پہلا تارا ابھرا زخم جگر بیدار ہوا
خود کو ملامت کیوں کرتے ہو اپنے آپ سے شکوہ کیا
جان کے کب دھوکا کھایا ہے انجانے میں پیار ہوا
ہم کو خرد کی راہ دکھانے والے یہ کیوں بھول گئے
اپنے لیے اس راہ جنوں میں صحرا بھی گلزار ہوا
عابد جعفری
دھوپ کا بوجھ بھلا میں نے اٹھایا کب تھا
میں تو تنہا تھا مری ذات کا سایا کب تھا
اتنے مانوس ہوئے غم سے کہ اب یاد نہیں
وقت نے درد کا انبار لگایا کب تھا
شام اتری مرے چہرے پہ تو سوچا میں نے
دن مری زیست کے آنگن میں سمایا کب تھا
درد بڑھتا ہے تو زخموں سے میں کرتا ہوں سوال
سنگ میں نے کسی وحشی پہ اٹھایا کب تھا
اب بھی ہے صبح مری آنکھ میں زخمی زخمی
کون کہتا ہے کہ میں شب کا ستایا کب تھا
عابد جعفری
یہی تو ایک شکایت سفر میں رہتی ہے
ہوائے گرد مسلسل نظر میں رہتی ہے
جزائے کاوش تعمیر یہ ملی ہے ہمیں
صدائے تیشہ سدا ساتھ گھر میں رہتی ہے
ہنر کسی میں ہو قسمت ہے اس کی در بدری
کہ آب و تاب گہر کب گہر میں رہتی ہے
سماعتوں کا پیمبر ہی بن سکے تو سنے
وہ داستاں جو لب چشم تر میں رہتی ہے
ہر ایک صبح پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں
نہ جانے کون سی سرخی خبر میں رہتی ہے
عابد جعفری
عبث ہے شاخ قد آور پہ آشیاں رکھنا
زمیں کو راس کب آیا ہے آسماں رکھنا
سفر کرو کہ ٹھہر جاؤ اک عذاب ہے یہ
قدم کو ہجرت و منزل کے درمیاں رکھنا
کسی کا شور فغاں سن کے یاد آیا بہت
فصیل غم میں مرا درد بے زباں رکھنا
کھلی فضا میں تو شبنم بھی بار لگتی ہے
اگر ہے طرز کہن سر پہ سائباں رکھنا
یہ لوگ اپنی ہی دیوار کے نقب زن ہیں
کبھی نہ بھول کے تم گھر کا پاسباں رکھنا
ہے ناؤ موجوں کی زد میں مگر ہمیں عابدؔ
نہ آیا باد مخالف پہ بادباں رکھنا
عابد جعفری
3rd Part Gazal In Urdu
پہلی سی دل کو خواہش ہجرت نہیں رہی
کیا اے زمیں ہماری ضرورت نہیں رہی
آنگن میں ساری رات برستی رہی گھٹا
دیوار گھر کی کوئی سلامت نہیں رہی
یوں ہی نہیں ارادۂ پہلو تہی کہ اب
ان سے نباہ کرنے کی صورت نہیں رہی
پتے ہیں خشک پھر بھی شجر سے ہیں منسلک
کیا کیجیے ہوا کی عنایت نہیں رہی
دریا میں لاکھ موجیں رہیں سر بکف مگر
کچے گھروں کو اب کوئی وحشت نہیں رہی
گلیوں میں پھر سے فرش لہو بچھ گیا تمام
انساں میں آج کل کے شرافت نہیں رہی
عابد جعفری
یہ داغ ہجر نہیں مٹ سکا جبیں کا لگا
زمیں کہیں کی ہے پیوند ہے کہیں کا لگا
ملا ہے دشت ہمیں جستجو میں منزل کی
گماں تھا پاؤں میں اور آبلہ یقیں کا لگا
ہمارا نام و نسب ہم سے پوچھنے والے
لہو نہ اس طرح دامن پہ آستیں کا لگا
اٹھا کے دوش پہ خیمے نکل پڑے ہم لوگ
ذرا نہ خوف ہمیں اجنبی زمیں کا لگا
عابد جعفری
نظر میں ایک بھی چہرہ نہیں چراغوں کا
غبار ہے مری آنکھوں میں کن اجالوں کا
چٹان ہے ترا پیکر تو آنکھ نم کیوں ہے
جواب ڈھونڈھتا رہتا ہوں ان سوالوں کا
فضا میں آندھیاں اس زور سے چلی ہیں کہ اب
پرند بھول گئے راستہ اڑانوں کا
ہے آج بھی مرے پہلو میں اک عجیب خلش
یہ اکتساب کرم ہے تمہاری بانہوں کا
عابد جعفری
گل صداقت سے مہکتے ہوئے تاثیر میں رکھ
سانحہ دل پہ جو گزرے وہی تحریر میں رکھ
طاق زنداں میں چراغ غم ہستی نہ جلا
آتش عشق دروں حلقۂ زنجیر میں رکھ
خشت بے فیض جو آراستہ گفتار میں ہے
اس کو بنیاد بنا کر کسی تعمیر میں رکھ
ظلمتوں سے کسی گھر کی نہیں ہوتی پہچان
سنگ و گل ہی نہیں کچھ نور بھی جاگیر میں رکھ
کب تلک دوش پہ خوابوں کے کرے گا پرواز
ہم نشیں عزم سفر وادیٔ تعبیر میں رکھ
دید کی زیست سے تا مرگ طلب آ پہنچی
حیلہ جو اور بہانے تو نہ تاخیر میں رکھ
سروری زور تکلم سے نہ مل پائے گی
ہم نشیں عجز بیاں خوبیٔ تقریر میں رکھ
عابد جعفری
اشک امڈیں تو انہیں پلکوں پہ روکا جائے
کیوں یہ پندار وفا صورت گریہ جائے
جب سے دیکھے ہیں تری آنکھوں کے ساگر ہم نے
اک نئی آرزو ابھری ہے کہ ڈوبا جائے
میں سماعت میں سمیٹے ہوں ہزاروں دشنام
ضبط غم کا ہے یہ ارشاد نہ بولا جائے
ہم کو اس خواب محبت سے جگایا کس نے
نقش چہروں پہ عداوت کا نہ دیکھا جائے
زخم خوردہ نہ کہیں انگلیاں وحشت ہو جائیں
بربط دل کو کسی کے نہ یوں چھیڑا جائے
دل ہے مصلوب انا بام پہ سورج بھی نہیں
کس طرح گھر کے اندھیروں کو اجالا جائے
پاؤں جب خار مغیلاں سے ہیں چھلنی عابدؔ
کیوں نہ پھر آتش نمرود میں اترا جائے
عابد جعفری
گھر تو لٹتا ہے مگر ہم کو مٹانے والے
کون سے دیس سے لائیں گے زمانے والے
دھوپ بخشی ہے تو پھر سایۂ دیوار بھی دے
لوگ سورج کو ہیں معبود بنانے والے
دل کو آمادۂ تجدید وفا کیسے کروں
رس رہے ہیں ابھی ناسور پرانے والے
یوں تو ملتے ہیں ہر اک جسم پہ بے داغ لباس
اٹھ گئے دل پہ مگر داغ اٹھانے والے
گھر میں گھر کی کوئی صورت تو نکالیں عابدؔ
آنے والے ہیں کبھی کے نہیں آنے والے
عابد جعفری
دل سے محرومیٔ احساس مٹانے کے لیے
گل کھلے ہیں مرے زخموں کو دکھانے کے لیے
پھر سے آواز کے دریا میں مرے نام کی ناؤ
بادبانوں کو اٹھاتی ہے گرانے کے لیے
رات ڈھلتی ہے چلو ڈھونڈ کے جگنو لائیں
وعدۂ انجم و مہتاب نبھانے کے لیے
کچھ پرندے مرے آنگن میں اتر آئے ہیں
بال و پر تیز ہواؤں سے بچانے کے لیے
سر سے سورج تری چاہت کا ڈھلا ہے شاید
مجھ پہ ہر سایۂ دیوار گرانے کے لیے
اپنے جذبوں کو کوئی شکل نہ دینا عابدؔ
ورنہ صورت کو بھی ترسو گے دکھانے کے لیے
عابد جعفری
FAQs
Q1: Who is Abid Jaffery?
A1: A renowned Pakistani poet and writer, known for his soulful ghazals that touch the heart and mind.
Q2: What is special about his ghazals?
A2: They beautifully capture the essence of love, life, and nature, with a unique blend of simplicity and depth.
Q3: Why are his ghazals loved by all?
A3: Because they resonate with universal emotions, speaking directly to the soul, and evoking feelings of joy, peace, and contemplation.
Q4: How do his ghazals inspire us?
A4: They encourage us to embrace life’s beauty, cherish love, and find solace in nature’s embrace, fostering a sense of hope and positivity.
Q5: What is the magic of Abid Jaffery’s ghazals?
A5: They weave together words, emotions, and experiences, creating a tapestry of wisdom, love, and inspiration that transcends time and space.
Pingback: Best Success Quotes in Urdu || ..._- D4Quotes [2024]