Start Allama Iqbal Poetry In Urdu
بالِ بلبل کو گل کا حسین غم ملے،
شاہین کو مرگ جواں کا سبق اور ملے۔
دریا ساحل پہ پھولوں کی آڑ میں،
جیون کو کلام جگانے کا غرض اور ملے۔
جواں نہیں، تو کیا شاہین کو جیتنا،
کوہ کان کو کوہ جیگر سے لڑنے کا وقت اور ملے۔
بیکاری کو بھی خودی کی راہ میں لائے،
سیلابوں کو چشمہ بہا کر اُس کا تلاش اور ملے۔
یہ عشق کہتا ہے زندگی کو جاگنا،
صد چمنوں کی خواب سونے سے پہلے اور ملے۔
ہر زخم پہ خونِ جگر بہا کر میری راہ میں،
عشق کی دھار میں محنت کا توفیق اور ملے۔
جو خواب ہو گئے شکنجہ، اُس کو چھوڑ دینا ہے،
شاہین کے پنکھوں سے آسمانوں کا سفر اور ملے۔
گر شکوہ ہو زمانے سے، تو اُس سے کہنا،
بچوں کی آوازوں میں، مرا پیغام اور ملے۔
سبقِ موت کو جیت کر اُس کو یاد کرنا،
شہادت کی راہ میں، جاں کی قربانی کا وقت اور ملے۔
بلبل کی داستانِ غم میں بھی خوشبو ہو،
شاہین کی فلاح کی راہوں میں، راہبری کا وقت اور ملے۔
Allama Iqbal Poetry In Urdu 2nd Part
اُس خواب کو پانے کے لئے شاہین کی جستجو،
ہر پر اُس کی طلب میں جہاں کا حسن اور ملے۔
اُس نگاہ کی روشنی سے دل کو روشنی ملے،
جوشِ عشق میں جگانے کا اور ملے۔
ہر زخم پر آہِ درد سے راز کا سنگ بنائے،
شاہین کی جدوجہد میں عقل کا ہدایت گر اور ملے۔
نہ ہو غافل اُس کی بے نوری کا تصور،
اُس کی بلندی کی بلندیوں تک سفر کا وقت اور ملے۔
بن کر شاہین، آزادی کی فصیلہ طلب کو،
ہر پرواز میں اُس کی پرواز کا اور ملے۔
شاہین کے دل کی دھڑکن، اُس کی آواز کا ہو،
ہر غم سے جنگ میں اُس کا اعتبار اور ملے۔
اُس کے پر نہ جلوہ ہوں، بلکہ اُس کی آزادی کی گواہی،
ہر اُٹھنے والے سورج کی روشنی کا اور ملے۔
تنگ دلی کو بھی شاہین کے پرواز سے راحت ملے،
زندگی کی راہوں میں اُس کا ہمراہی اور ملے۔
ہر اُٹھتی ہویٔی لہر پر اُس کا پر اڑانا،
ہر غم کو پھینک کر، نیا رنگِ بہار کا اور ملے۔
شاہین کی راہوں میں بہت سی گہرائیاں ہیں،
ہر مشکل کو آسانی سے پار کرنے کا وقت اور ملے۔
Allama Iqbal Poetry In Urdu 3nd Part
ہمیشہ شاہین بنے رہیں، بے خوف اور بے باک،
ہر مقابلے میں اُس کا عزمِ اور ملے۔
شاہین کی آزادی کا تصور ہمیں ہر دم رہے،
ہر میدان میں اُس کا جذبہ اور ملے۔
بنا روک تھام، پر اُڑتے رہیں شاہین،
ہر اُٹھتی مشکل پر جیت کی سکھین اور ملے۔
راستے میں آئے رکاوٹوں کو ہم نے دور کیا،
شاہین کی فلاح کی راہوں میں آسانی اور ملے۔
عظیم ہے وہ فریاد، شاہین کی آواز کی،
ہر دل میں اُس کی روشنی اور ملے۔
نہ ہو کبھی ختم، اُس کا جوش و جذبہ،
ہر دل میں اُس کا پیغام اور ملے۔
شاہین کی آزادی کی قصیدہ بندی کرتے ہوئے،
ہمیں ہر زمانے میں اُس کا اعتبار اور ملے۔
یہ شاہین کی قصہ، اداکاروں کی طرح،
ہر دل میں اُس کا یادگار اور ملے۔
شاہین کے پر، اُس کی قسمت کا حصّہ ہوں،
ہر روز اُس کی اڑان میں بے خودی اور ملے۔
جیسے بادلوں کو اُڑانے کا شوق ہو،
میرے دل میں بھی اُس کے لئے بہتری اور ملے۔
End Allama Iqbal Poetry In Urdu
:اختتامی خیال
شاہین کی آزادی کی قصہ ایک لمحہ بھی مسخر کرنے والا نہیں۔ یہ ایک فرازی کہانی ہے جو ہمیں حریت کی قدر کرنے اور اپنے خوابوں کی تلاش میں محنت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ شاہین کی آزادی کی پرواز کی راہوں میں ہمیشہ انکشافات اور سیکھنے کی ساتھی بنیں، اور اپنے دل کے شاہین کی آواز کو سنتے رہیں۔”